کاربر:Test-fr/صفحه تمرین

از ویکی شیعه
سید ابوالقاسم خوانساری ریاضی
اطلاعات فردی
نام کاملسید ابوالقاسم بن محمود خوانساری
نسبخاندان خوانساریامام کاظم(ع)
تاریخ وفات-سال ۱۳۸۰ه
اطلاعات علمی
استادانابوتراب خوانساریآقا ضیا عراقی
شاگردانسید محمد حسین طباطبایی
اجازه اجتهاد ازابوتراب خوانساری، سید حسن صدر و سید ابوالحسن اصفهانی
تألیفاتاعجاز المهندسین • رسالة الجبر و المقابلة • رسالة قابلیة تقسیم الاعداد • رساله‌های متعدد دیگر در ریاضیات • حاشیه بر مستدرک الوسائل
فعالیت‌های اجتماعی-سیاسی
اجتماعیتبلیغ شیعه در پاکستان


سید ابوالقاسم بن محمود خوانساری ریاضی سنہ1891ء مطابق 1309ھ کو ایران کے شہر خوانسار میں پیدا ہوئے۔ آپ چودہویں صدی ہجری کے شیعہ علما میں سے تھے اور دینی علوم میں تبحر رکھنے کے ساتھ ساتھ حساب، ہندسہ اور الجبرا پر بھی خاصی مہارت رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں آپ کے قلمی آثار بھی موجود ہیں۔ سید ابو القاسم خوانساری نے ابوتراب خوانساری اور آقا ضیا عراقی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ انہوں نے ابوتراب خوانساری، سید حسن صدر اور سید ابوالحسن اصفهانی سے اجازه اجتهاد اور روایت بھی حاصل کیا. علامه طباطبایی آپ کےشاگرد تھے. آپ سید ابوالحسن اصفهانی کے حکم پر پاکستان گئے اور سنہ 1960ء مطابق سنہ 1380ھ میں منطقہ گِلگِت میں وفات پاگئے اور وہیں مدفون ہوئے.

حسب و نسب

سید ابوالقاسم خوانساری ریاضی، محمود خوانساری کے بیٹے اور خوانساری خاندان کے علما میں سے تھے۔ خوانساری خاندان کا سلسلہ نسب محب الله بن قاسم سے ملتا ہے اور ان کا نسب سات واسطوں سے صالح قصیر سے جاملتا ہے، نتیجتا سید ابو القاسم خوانساری سلسلہ نسب میں امام کاظم(ع) سے جاملتا ہے۔ اس خاندان کے اکثر علما ایران کے شہر خوانسار میں جبکہ دیگر کچھ علما گلپائگان اور اصفہان اور کچھ علما عراق اور ہندوستان میں رہائش پذیر تھے۔[۱]

علمی فعالیتیں

سید ابو القاسم خوانساری نے فقہ و اصول کے دروس خارج کو اپنے چچا ابو تراب خوانساری اور ضیاء الدین عراقی کے پاس پڑھا۔ ابو تراب خوانساری، سید حسن صدر اور سید ابو الحسن اصفہانی سے اجازہ اجتہاد اور روایت حاصل کیا۔ آپ دینی علوم میں کافی تبحر رکھتے تھے اور علم حساب، ہندسہ اور الجبرا میں بھی کافی مہارت رکھتے تھے۔ ان موضوعات سے متعلق آپ کے قلمی آثار موجود ہیں۔علامه سید محمد حسین طباطبائی آپ کے خاص شاگردوں میں شمار ہوتے تھے۔[یادداشت ۱] [۲]

فعالیت اجتماعی

خوانساری به درخواست سید ابوالحسن اصفهانی برای تبلیغ به پاکستان وفت و در آنجا سکونت گزید. و در سال ۱۳۸۰ در شهر گِلگت در شمال پاکستان درگذشت و در همانجا دفن شد. بر مدفن او بقعه‌ای بنا گردید.[۳]

آثار

ابوالقاسم خوانساری ریاضی کتابخانه‌ای با کتاب‌های نفیس داشت او بیش از سی اثر تألیف کرد که برخی از آنها عبارتند از:

  • اعجاز المهندسین، او الهندسة التی لا یحتاج الی الفرجار (پرگار)
  • رسالة الجبر و المقابلة
  • رسالة قابلیة تقسیم الاعداد
  • رسالة فی استخراج نهایة الخطأ الکعب
  • رساله‌های متعدد دیگر در ریاضیات
  • اعتقادات، یا تاریخ تمدن
  • سیاحات المتفکرین فی آراء الملحدین و المتدینین یا دین بی‌نزاع
  • منظومه‌ای بدون الف به فارسی
  • حاشیه بر مستدرک الوسائل میرزا حسین نوری
  • جزواتی در فقه و اصول.[۴]

پانویس

  1. موسوی خوانساری، مقدمۀ روضاتی، ص84-90؛ روضاتی، 1332شمسی، ص11-14.
  2. نشریه گلستان قرآن، وابسته به موسسه نمايشگاه‌های فرهنگی ايران آذر 1381 - شماره 136
  3. آقابزرگ طهرانی، طبقات، نقبا، قسم۱، ص۶۴، قسم۲، ص۶۴۵؛ موسوی اصفهانی، ج۲، ص۲۶؛ موسوی خوانساری، مقدمۀ روضاتی، ص۱۹۱.
  4. آقابزرگ طهرانی، الذریعة، ج۳، ص۳۸۴، ج۵، ص۸۷، ج۶، ص۳۳، ج۱۱، ص۶۵، ج۱۷، ص۲، ج۲۱، ص۳۹۱،۳۹۹، ج۲۳، ص۱۰۳; موسوی خوانساری، مقدمۀ روضاتی، ص۱۹۱-۱۹۳.

یادداشت

  1. مرحوم سید حسین بادکوبی تعلیم و تربیت پر بے حد توجہ دیتے تھے، میرے طرز فکر مرحوم بادكوبى (آقا سيد حسين بادكوبى) از فرط عنايتى كه به تعليم و تربيت نويسنده داشت، براى اين كه مرا به طرز تفكر برهانى آشنا ساخته، به ذوق فلسفى تقويت بخشد، امر فرمود كه به تعليم رياضيات پردازم. در امتثال امر معظم له به درس مرحوم آقا سيد ابوالقاسم خوانسارى كه رياضى‌دان زبردستى بود، حاضر شدم و يك دوره حساب استدلالى و يك دوره هندسه مسطحه و فضايى و جبر استدلالى از معظم له فرا گرفتم.(زندگی‌نامه خودنوشت علامه طباطبایی)

منابع

  • منبع مقاله: بر گرفته از مقاله خاندان خوانساری در دانشنامه جهان اسلام، ج۱۶، صص۳۷۷-۳۸۳.
  • آقابزرگ طهرانی، الذریعة الی التصانیف الشیعة، چاپ علی نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۸۹۳م.
  • آقا بزرگ طهرانی، طبقات اعلام الشیعة، نقباء البشر، فی القرن الرابع عشر، محمد، مشهد، قسم۱-۴، ۱۴۰۴ق.
  • موسوی اصفهانی، محمدمهدی، احسن الودیعة فی ترجمة اشهر مشاهیر مجتهدی الشیعة، او، تتمیم روضات الجنات، بغداد، ۱۳۸۴.
  • روضاتی، محمدعلی، زندگانی حضرت آیت الله چهار سوقی، حاوی شرح حال بیش از یکصد نفر رجال قرون اخیره، اصفهان، ۱۳۳۲ش.